Hum apni sorton k mamasil Nahi rahe
ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے
ایک عمر آئینے کے مقابل نہیں رہے
مجبوریاں کچھ اور ہی لاحق رہی ہمیں
دل سے ترے خلاف تو اے دل ،نہیں رہے
اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام
اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے
بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے مگر یہ رنج!
ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے
عمرِرواں کے موڑ پہ کچھ خواب،میرے خواب
کھوگئے ہیں ایسے کہ اب مِل نہیں رہے
اپنے لیے ہمیں کبھی فرصت نہ مِل سکی
اس کو گلہ کہ ہم اسے حاصل نہیں رہے
کیا رات تھی کہ شہر کی صورت بدل گئی
ہم اعتبارِ صبح کے قابل نہیں رہے
ثــــمــیـنـہ راجــــہ مرحوم
Comments