حضور یاد ہے میدان حشر کا وعدہ
تیرا خیال اگر جُزوِ زندگی نہ رہے
جہاں میں میرے لیے کوئی دلکشی نہ رہے
میں آ گیا ہوں وہاں تک تیری تمنا میں
جہاں سے کوئی بھی امکان واپسی نہ رہے
تُو ٹھیک کہتا ہے اے یار ٹھیک کہتا ہے
کہ ہم ہی قابلِ تجدیدِ عاشقی نہ رہے
حضور یاد ہے میدان حشر کا وعدہ
کہیں وہاں بھی میری آنکھ ڈھونڈتی نہ رہے
میرا تو خیر ازل سے ہی غم مقدر ھے
تیری نگاہ کی پہچان بے رُخی نہ رھے
تیرے ہجر کا موسم عذاب ہے محسن
کبھی کبھی تو میں کہتا ہوں زندگی نہ رہے
Comments